EN हिंदी
کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں | شیح شیری
kahin par subh rakhta hun kahin par sham rakhta hun

غزل

کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں

ابرار احمد

;

کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں
پھر اس بے ربط سے خاکے میں خود سے کام رکھتا ہوں

سلیقے سے میں اس کی گفتگو کا لطف لیتا ہوں
اور اس کے رو بہ رو دل میں خیال خام رکھتا ہوں

بہ ظاہر مدح سے اس کی کبھی تھکتا نہیں لیکن
درون خانۂ دل خواہش دشنام رکھتا ہوں

خوش آئی ہے ابھی تو قید خواہش اس خرابے میں
ابھی خود کو رہین گردش ایام رکھتا ہوں

سفر کی صبح میں رنج سفر کی دھول اڑتی ہے
حد آغاز میں اندیشۂ انجام رکھتا ہوں

فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہے
کہ اس کو چھوڑ پاتا ہوں نہ اس کو تھام رکھتا ہوں

دلیل خواب مستی ہے تری آمادگی امشب
مگر اس شب میں تجھ سے اور کوئی کام رکھتا ہوں

تجاوز سے بھلا کب تک گزر اوقات ممکن تھی
سو اپنے خون تک شور دل بد نام رکھتا ہوں