EN हिंदी
کہیں خلوص کی خوشبو ملے تو رک جاؤں | شیح شیری
kahin KHulus ki KHushbu mile to ruk jaun

غزل

کہیں خلوص کی خوشبو ملے تو رک جاؤں

طاہر فراز

;

کہیں خلوص کی خوشبو ملے تو رک جاؤں
مرے لیے کوئی آنسو کھلے تو رک جاؤں

میں اس کے سائے میں یوں تو ٹھہر نہیں سکتا
اداس پیڑ کا پتا ہلے تو رک جاؤں

کبھی پلک پہ ستارے کبھی لبوں پہ گلاب
اگر نہ ختم ہوں یہ سلسلے تو رک جاؤں

وہ ایک ربط جو اتنا بڑھا کہ ٹوٹ گیا
سمٹ کے جوڑ دے یہ فاصلے تو رک جاؤں

بہت طویل اندھیروں کا ہے سفر طاہرؔ
کہیں جو دھوپ کا سایہ ملے تو رک جاؤں