EN हिंदी
کہیں جو عزم ذرا حوصلہ نکل آئے | شیح شیری
kahin jo azm zara hausla nikal aae

غزل

کہیں جو عزم ذرا حوصلہ نکل آئے

نبیل احمد نبیل

;

کہیں جو عزم ذرا حوصلہ نکل آئے
فصیل غم سے نیا راستا نکل آئے

نہ پوچھ مجھ سے تو اس حسن دل ربا کی کشش
جدھر بھی دیکھے وہاں آئنہ نکل آئے

کسی نواح کی بھی بات ہو مگر اے دوست
میان بزم ترا تذکرہ نکل آئے

میں مانتا ہوں نہیں تجھ سا دوسرا کوئی
کوئی جو تیرے سوا دوسرا نکل آئے

سناں کی نوک پہ آ جائے گر مرا سر بھی
فلک سے اونچا مرا مرتبہ نکل آئے

میں اس خدائی میں زندہ ہوں اک زمانے سے
ہر اک گلی سے نیا اک خدا نکل آئے

نبیلؔ اس لیے میں عاشقی سے باز آیا
جسے بھی پیار کروں بے وفا نکل آئے