کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں
پہن لیتا ہوں جب دستار تو سر بھول جاتا ہوں
وگرنہ تو مجھے سب یاد رہتا ہے سوا اس کے
کہاں ہوں کون ہوں کیوں ہوں میں اکثر بھول جاتا ہوں
مرے اس حال سے گمراہ ہو جاتے ہیں رہبر بھی
میں اکثر راستے میں اپنا ہی گھر بھول جاتا ہوں
دکھاتا پھر رہا ہوں سب کو اپنے زخم سر لیکن
مرے ہاتھوں میں بھی ہے ایک پتھر بھول جاتا ہوں
نکل جاتا ہوں خود اپنے حصار ذات سے باہر
میں اکثر پاؤں پھیلانے میں چادر بھول جاتا ہوں
کبھی جب سوچنے لگتا ہوں پس منظر کے بارے میں
تو میرے سامنے ہو کوئی منظر بھول جاتا ہوں
کبھی تو اتنا بڑھ جاتی ہے میری پیاس کی شدت
مرے چاروں طرف ہے اک سمندر بھول جاتا ہوں

غزل
کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں
بھارت بھوشن پنت