EN हिंदी
کہیں حسن کا تقاضا کہیں وقت کے اشارے | شیح شیری
kahin husn ka taqaza kahin waqt ke ishaare

غزل

کہیں حسن کا تقاضا کہیں وقت کے اشارے

شکیل بدایونی

;

کہیں حسن کا تقاضا کہیں وقت کے اشارے
نہ بچا سکیں گے دامن غم زندگی کے مارے

شب غم کی تیرگی میں مری آہ کے شرارے
کبھی بن گئے ہیں آنسو کبھی بن گئے ہیں تارے

نہ خلش رہی وہ مجھ میں نہ کشش رہی وہ مجھ میں
جسے زعم عاشقی ہو وہی اب تجھے پکارے

جنہیں ہو سکا نہ حاصل کبھی کیف قرب منزل
وہی دو قدم ہیں مجھ کو تری جستجو سے پیارے

میں شکیلؔ ان کا ہو کر بھی نہ پا سکا ہوں ان کو
مری طرح زندگی میں کوئی جیت کر نہ ہارے