کہیں حسن کا تقاضا کہیں وقت کے اشارے
نہ بچا سکیں گے دامن غم زندگی کے مارے
شب غم کی تیرگی میں مری آہ کے شرارے
کبھی بن گئے ہیں آنسو کبھی بن گئے ہیں تارے
نہ خلش رہی وہ مجھ میں نہ کشش رہی وہ مجھ میں
جسے زعم عاشقی ہو وہی اب تجھے پکارے
جنہیں ہو سکا نہ حاصل کبھی کیف قرب منزل
وہی دو قدم ہیں مجھ کو تری جستجو سے پیارے
میں شکیلؔ ان کا ہو کر بھی نہ پا سکا ہوں ان کو
مری طرح زندگی میں کوئی جیت کر نہ ہارے
غزل
کہیں حسن کا تقاضا کہیں وقت کے اشارے
شکیل بدایونی