کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی مرے ذکر پر جھینپ جاتی تو ہوگی
حیا بار آنکھوں میں سپنے سجائے وہ کچھ سوچ کر مسکراتی تو ہوگی
مرے شعر پڑھ کر اکیلے میں اکثر انہیں زیر لب گنگناتی تو ہوگی
مرے نام پھر کچھ وہ لکھنے کی خاطر قلم بے ارادہ اٹھاتی تو ہوگی
حسیں چاندنی ہو یا ساون کی رت ہو کسک اس کے دل میں جگاتی تو ہوگی
کسی کے تصور کو پہلو میں پا کر وہ شرما کے خود کسمساتی تو ہوگی
مجھے پا کے بزم تصور میں تنہا وہ پلکوں کی چلمن گراتی تو ہوگی
بڑے پیار سے پھر بہت ہی لگن سے وہ خوابوں کی دنیا سجاتی تو ہوگی
وہ معصوم تنہا پریشاں سی لڑکی اسے یاد میری ستاتی تو ہوگی
نگاہوں کے بادل برستے جو ہوں گے وہ چھپ چھپ کے آنسو بہاتی تو ہوگی
کسی کی حسیں شوخ آنکھوں میں یارو مری یاد میں جھلملاتی تو ہوگی
سہیلی کو تصویر میری دکھا کر وہ شرما کے خود جھینپ جاتی تو ہوگی
وہ بن کر سنور کر اکیلے میں اکثر شکیلؔ اک قیامت جگاتی تو ہوگی
تصور میں مجھ کو قریب اپنے پا کر وہ شیشے سے نظریں چراتی تو ہوگی
غزل
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی مرے ذکر پر جھینپ جاتی تو ہوگی
سید شکیل دسنوی