کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آ سکا
میں تری صدائے نگہ پہ کب نہیں آ سکا
ترے ہجر تیرے وصال اپنے خیال میں
کسی آئنے میں میں سب کا سب نہیں آ سکا
ترے قرب میں مجھے موت یاد نہیں رہی
وہ سحر ہوئی کہ خیال شب نہیں آ سکا
جو تمام عمر رہا سبب کی تلاش میں
وہ تری نگاہ میں بے سبب نہیں آ سکا
ہوئی ایسے سایۂ رنج میں مری تربیت
کبھی کوئی وسوسۂ طرب نہیں آ سکا
یہ مری متاع گراں ہوا میں بکھر گئی
مجھے اپنے سوز نہاں کا ڈھب نہیں آ سکا
غزل
کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آ سکا
خورشید رضوی