EN हिंदी
کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آ سکا | شیح شیری
kahin bhi maqam-e-sada-e-lab nahin aa saka

غزل

کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آ سکا

خورشید رضوی

;

کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آ سکا
میں تری صدائے نگہ پہ کب نہیں آ سکا

ترے ہجر تیرے وصال اپنے خیال میں
کسی آئنے میں میں سب کا سب نہیں آ سکا

ترے قرب میں مجھے موت یاد نہیں رہی
وہ سحر ہوئی کہ خیال شب نہیں آ سکا

جو تمام عمر رہا سبب کی تلاش میں
وہ تری نگاہ میں بے سبب نہیں آ سکا

ہوئی ایسے سایۂ رنج میں مری تربیت
کبھی کوئی وسوسۂ طرب نہیں آ سکا

یہ مری متاع گراں ہوا میں بکھر گئی
مجھے اپنے سوز نہاں کا ڈھب نہیں آ سکا