کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں
فرشتے روز ہمارا حساب لکھتے ہیں
بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں اسی یگ میں
کتاب پڑھتے نہیں ہیں کتاب لکھتے ہیں
وہ اپنے جسم کے خانوں میں آگ رکھتے ہیں
گلاب ہوتے نہیں ہیں گلاب لکھتے ہیں
یہاں کے لوگ تو تعبیر جانتے ہی نہیں
یہ اپنے نیند میں رہنے کو خواب لکھتے ہیں
تمہارے ظلم تمہارے ستم نہیں لکھتے
ہم اپنے آپ کی قسمت خراب لکھتے ہیں
غزل
کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں
ناصر راؤ