EN हिंदी
کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں | شیح شیری
kahin azab kahin par sawab likhte hain

غزل

کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں

ناصر راؤ

;

کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں
فرشتے روز ہمارا حساب لکھتے ہیں

بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں اسی یگ میں
کتاب پڑھتے نہیں ہیں کتاب لکھتے ہیں

وہ اپنے جسم کے خانوں میں آگ رکھتے ہیں
گلاب ہوتے نہیں ہیں گلاب لکھتے ہیں

یہاں کے لوگ تو تعبیر جانتے ہی نہیں
یہ اپنے نیند میں رہنے کو خواب لکھتے ہیں

تمہارے ظلم تمہارے ستم نہیں لکھتے
ہم اپنے آپ کی قسمت خراب لکھتے ہیں