کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے
اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے
ہوئے ہیں کھوکھلے ہم لوگ ہجرت میں سو ڈرتے ہیں
خلا یہ روح کا ایسا نہ ہو باہر نکل آئے
یہ لگتا ہے کہ پتوں پہ رکھی تھیں منتظر آنکھیں
مرے آتے ہی کتنے پھول شاخوں پر نکل آئے
نہ جانے کھول دے کب کوئی لمحہ یاد کی گٹھری
کسی کونے سے ماضی کا حسیں منظر نکل آئے
مرے ہونٹوں پہ بکھرا یہ تبسم ڈھال ہے میری
کہ جانے کب اداسی کا کہیں خنجر نکل آئے
گرے ہیں جتنے آنسو دامن صحرا میں صدیوں سے
سلگتی ریت بھی اندر سے شاید تر نکل آئے
غزل
کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے
سلیم فگار