کہی بات اس نے بھی خدشات کی
کہاں تھے یہ تم نے کدھر رات کی
یہ شکنوں بھری جو تری شال ہے
ہے کہتی کہانی کسی رات کی
ہمیشہ رہے گی مرے ساتھ یہ
صنم تم نے غم کی جو سوغات کی
تری آنکھ نے جب بھی دیکھا ہمیں
کلی مسکرا دی ہے جذبات کی
بہت دکھ سے سہنی پڑی ہے مجھے
گھڑی یہ محبت کے صدمات کی
یہ پتھر جو مارا تری یاد نے
بدل دی کہانی خیالات کی
تھیں بانہیں گلے میں مرے یار کی
یہ تصویر تھی اس ملاقات کی
غزل
کہی بات اس نے بھی خدشات کی
سید صغیر صفی