کہیں گے کس سے ہیں خود اپنی تیغ کے گھائل
نہ اختیار پہ قابو نہ جبر کے قائل
میں خود ہوں اپنی تمنا فریبیوں کا شکار
جو دل پہ گزرے گزر جائے پر نہ تو ہو خجل
حیات وقفۂ راحت ہے راہ رو کے لیے
عدم سے تا بہ عدم ہے سفر کی اک منزل
نوید عالم نو دے رہا ہے سیل ارم
چھپے ہوئے ہیں سمندر کی تہہ میں بھی ساحل
نہ بڑھ سکا حد ادراک سے شعور طلب
گناہ گار ہوں میں اپنے حوصلوں سے خجل
ہے بار دوش ہمارے لیے بھی سر اپنا
تمہارے شہر میں پھرتے ہیں اب کھلے قاتل
مجھے تو صدمۂ فرقت سے اتنا ہوش نہ تھا
تمہیں خبر ہے یہ کس کا دھڑک رہا تھا دل
ابھی سے گرمئی آغوش موج بحر کہاں
بہت ہے دور ابھی تو مراد کا ساحل
وہ چاٹ لیتے ہیں کلیوں سے قطرۂ شبنم
جنہیں سمجھتے ہیں دنیا میں لوگ دریا دل
ہمیں نے درد کو سارے جہاں کے اپنایا
ہمیں کو لوگ سمجھتے ہیں مجرم و قاتل
معاہدہ بھلا صیاد و صید میں کیسا
یہ اتفاق ہے وہ بھی ہیں آج پا در گل
قلندران تہی دست کچھ نہیں رکھتے
زہ نصیب اگر ہو قبول ہدیۂ دل
وہ قادریؔ کو سمجھتے ہیں جاں نثاروں میں
کرم ہے ان کا فقط ہم نہیں کسی قابل
غزل
کہیں گے کس سے ہیں خود اپنی تیغ کے گھائل
خالد حسن قادری