EN हिंदी
کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں | شیح شیری
kahen kya ki kya kya sitam dekhte hain

غزل

کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں

منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

;

کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
لکھا ہے جو قسمت میں ہم دیکھتے ہیں

کبھی آہ نعرہ کبھی کھینچتے ہیں
ہم اس ساز کا زیر و بم دیکھتے ہیں

خط سر نوشت اپنا ہم پڑھ رہے ہیں
تمہارا جو نقش قدم دیکھتے ہیں

مرے رو بہ رو وہ بہم غیر سے ہیں
نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں

رہی گر تلاش کمر یوں ہی ہم کو
کوئی دم میں ملک عدم دیکھتے ہیں

ہزاروں گماں دل میں ہوتے ہیں پیدا
ترے ہاتھ میں جب قلم دیکھتے ہیں

نہیں جانا کس دن تو غیروں کے گھر پر
صریحاً تو آنکھوں سے ہم دیکھتے ہیں

نہیں آرزو کچھ بھی بوسے کی ہم کو
مگر ہم تمہارا کرم دیکھتے ہیں

جو عالم کہ دیکھا ہے کوئے بتاں میں
خدا کی خدائی میں کم دیکھتے ہیں

نظر آتے ہو سحرؔ عاشق کسی پر
تمہیں ہر گھڑی چشم نم دیکھتے ہیں