کہانی میں چھوٹا سا کردار ہے
ہمارا مگر ایک معیار ہے
خدا تجھ کو سننے کی توفیق دے
مری خامشی میرا اظہار ہے
یہ کیسے علاقے میں ہم آ بسے
گھروں سے نکلتے ہی بازار ہے
سیاست کے چہرے پہ رونق نہیں
یہ عورت ہمیشہ کی بیمار ہے
حقیقت کا اک شائبہ تک نہیں
تمہاری کہانی مزے دار ہے
تعلق کی تجہیز و تکفین کر
وہ دامن چھڑانے کو تیار ہے
پڑوسی پڑوسی سے ہے بے خبر
مگر سب کے ہاتھوں میں اخبار ہے
یہ چھٹی کا دن ہم سے مت چھیننا
یہی ہم غریبوں کا تہوار ہے
اسے مشوروں کی ضرورت نہیں
وہ تم سے زیادہ سمجھ دار ہے
غزل
کہانی میں چھوٹا سا کردار ہے
شکیل جمالی