کہاں یہ اوس نہیں آفتاب کی زد میں
زمانہ آج بھی ہے انقلاب کی زد میں
ظہور زاویۂ قائمہ سے ہے ثابت
یہ کائنات ہے علم الحساب کی زد میں
اگرچہ ان کی تسلی میں ہے یقیں شامل
دل حزیں ہے مگر اضطراب کی زد میں
میں اپنے نالۂ بے اختیار کے قرباں
جو نغمہ بن کے نہ آیا رباب کی زد میں
وہ دشت جس میں کہ دہشت ہے بے کراں صائبؔ
وہ دشت ہے دل وحشت مآب کی زد میں

غزل
کہاں یہ اوس نہیں آفتاب کی زد میں
محمد صدیق صائب ٹونکی