EN हिंदी
کہاں یہ اوس نہیں آفتاب کی زد میں | شیح شیری
kahan ye os nahin aaftab ki zad mein

غزل

کہاں یہ اوس نہیں آفتاب کی زد میں

محمد صدیق صائب ٹونکی

;

کہاں یہ اوس نہیں آفتاب کی زد میں
زمانہ آج بھی ہے انقلاب کی زد میں

ظہور زاویۂ قائمہ سے ہے ثابت
یہ کائنات ہے علم الحساب کی زد میں

اگرچہ ان کی تسلی میں ہے یقیں شامل
دل حزیں ہے مگر اضطراب کی زد میں

میں اپنے نالۂ بے اختیار کے قرباں
جو نغمہ بن کے نہ آیا رباب کی زد میں

وہ دشت جس میں کہ دہشت ہے بے کراں صائبؔ
وہ دشت ہے دل وحشت مآب کی زد میں