کہاں تیور ہیں ان میں اب وہ کل کے
ہوا چلنے لگی ہے رخ بدل کے
جدائی کی گھڑی ہے دشمن دل
بلا ہے یہ نہیں ٹلتی ہے ٹل کے
ادا ان کی مزہ دیتی ہے ہم کو
مزہ آتا ہے ان کو دل مسل کے
پہیلی بن کے وہ اوجھل ہوا ہے
کئے ہیں بند در سب اس نے جل کے
وفا کے پھول تب سمجھو کھلیں گے
جو آئے گا کوئی کانٹوں پہ چل کے
وہ کر دیتے ہیں نا ممکن کو ممکن
مری آغوش میں اکثر مچل کے
نظر کے تیر نازک ہیں تمہارے
جبھی پر لطف ہیں یہ وار ہلکے
سہیلؔ اس دل کی حالت اور محبت
بہا آنکھوں سے وہ پتھر پگھل کے
غزل
کہاں تیور ہیں ان میں اب وہ کل کے
سہیل کاکوروی