کہاں تلک تری یادوں سے تخلیہ کر لیں
ہم اپنے آپ کو بھولے ہیں اور کیا کر لیں
نہ اشک آنکھ میں آئے نہ آنکھ بہہ نکلے
تو کیوں نہ جانب پہلو ہی آج وا کر لیں
ہزار رنگ قباؤں پہ ڈال رکھے ہیں
عجیب خبط ہے دامن کو پارسا کر لیں
بڑے غرور سے کی ہے ضمیر نے توبہ
جو تو ملے کبھی تنہا تو پھر خطا کر لیں
مرے لیے تو یہ دنیا سراب جیسی ہے
اب اس پہ خاک نہ ڈالیں تو اور کیا کر لیں
نہ دل رہے نہ محبت رہے نہ درد رہے
چلو اکیلے میں مل کر یہ فیصلہ کر لیں
انہیں کا نام ہے دل کی ہر ایک دھڑکن پر
وہ چاہتے ہیں کہ سانسیں بھی اب بتا کر لیں
غزل
کہاں تلک تری یادوں سے تخلیہ کر لیں
ؔسراج عالم زخمی