کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
نہ دے شراب ڈبو کر کوئی کباب تو دے
بجھے گا سوز دل اے گریہ پل میں آب تو دے
دگر ہے آگ میں دنیا یوں ہی عذاب تو دے
گزرنے گر یہ مرے سر سے اتنا آب تو دے
کہ سر پہ چرخ بھی دکھلائی جوں حباب تو دے
ہزاروں تشنہ جگر کس سے ہوئیں گے سیراب
خدا کے واسطے تیغ ستم کو آب تو دے
تمہارے مطلع ابرو پہ یہ کہے ہے خال
کہ ایسا نقطہ کوئی وقت انتخاب تو دے
در قبول ہے درباں نہ بند کر در یار
دعائے خیر مری ہونے مستجاب تو دے
کھلے ہے ناز سے گلشن میں غنچۂ نرگس
ذرا دکھا تو اسے چشم نیم خواب تو دے
بلا سے آپ نہ آئیں پہ آدمی ان کا
تسلی آ کے مجھے وقت اضطراب تو دے
ہوا بگولے میں ہے کشتگان زلف کی خاک
کہ بعد مرگ بھی معلوم پیچ و تاب تو دے
بلا سے کم نہ ہو گریہ سے میرا سوز جگر
بجھا پر ان کی ذرا آتش عتاب تو دے
شہید کیجیو قاتل ابھی نہ کر جلدی
ٹھہرنے مجھ کو تہ تیغ اضطراب تو دے
شکار بستۂ فتراک کو ترے مقدور
ہوا نہ یہ بھی کہ بوسہ سر رکاب تو دے
دل برشتہ کو میرے نہ چھوڑو مے خوارو
جو لذت اس میں ہے ایسا مزا کباب تو دے
نشے میں ہوش کسے جو گنے حساب کرے
جو تجھ کو دینا ہیں بوسے بلا حساب تو دے
جواب نامہ نہیں گر تو رکھ دو نامۂ یار
جو پوچھیں قبر میں عاشق سے کچھ جواب تو دے
رکھے ہے حوصلہ دریا کب اہل ہمت کا
نہیں یہ اتنا کہ بھر کاسۂ حباب تو دے
کہاں بجھی ہے تہ خاک میری آتش دل
کہو ہوا سے ہلا دامن سحاب تو دے
خنک دلوں کی اگر آہ سرد دوزخ میں
پڑے تو واقعی اک بار آگ داب تو دے
کرے گا قتل وہ اے ذوقؔ تجھ کو سرمے سے
نگہ کی تیغ کو ہونے سیاہ تاب تو دے
پہنچ رہوں گا سر منزل فنا اے ذوقؔ
مثال نقش قدم کرنے پا تراب تو دے
غزل
کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
شیخ ابراہیم ذوقؔ