کہاں تک کاوش اثبات پیہم
کہاں تک زخم دل تدبیر مرہم
سکوت شب ہجوم ناامیدی
شمار داغ ہائے زیست اور ہم
کبھی عالم غبار چشم حیراں
کبھی وہ اک نگہ اور ایک عالم
بڑھاؤ جرأت افکار کی لو
ابھی ہے گرمیٔ بزم جنوں کم
دہکنے دو ابھی داغوں سے محفل
چھلکنے دو ابھی پیمانۂ غم
یہ کس منزل پہ لے آئی تمنا
کہ بس اک درد تنہائی ہے محرم
غزل
کہاں تک کاوش اثبات پیہم
زاہدہ زیدی