EN हिंदी
کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا | شیح شیری
kahan tak baDh gai hai baat likhna

غزل

کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا

کنول ضیائی

;

کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا
مرے گاؤں کے سب حالات لکھنا

جواں بیٹوں کی لاشوں کے علاوہ
ملی ہے کون سی سوغات لکھنا

کوئی سوتا ہے یا سب جاگتے ہیں
وہاں کٹتی ہے کیسے رات لکھنا

لہو دھرتی میں کتنا بو چکے ہو
نئی فصلوں کی بھی اوقات لکھنا

کہاں جلتا رہا دھرتی کا سینہ
کہاں ہوتی رہی برسات لکھنا

ہماری سر زمیں کس رنگ میں ہے
وہاں بہتے لہو کی ذات لکھنا

میں چھپ کر گھر میں آنا چاہتا ہوں
لگی ہے کس گلی میں گھات لکھنا