کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا
مرے گاؤں کے سب حالات لکھنا
جواں بیٹوں کی لاشوں کے علاوہ
ملی ہے کون سی سوغات لکھنا
کوئی سوتا ہے یا سب جاگتے ہیں
وہاں کٹتی ہے کیسے رات لکھنا
لہو دھرتی میں کتنا بو چکے ہو
نئی فصلوں کی بھی اوقات لکھنا
کہاں جلتا رہا دھرتی کا سینہ
کہاں ہوتی رہی برسات لکھنا
ہماری سر زمیں کس رنگ میں ہے
وہاں بہتے لہو کی ذات لکھنا
میں چھپ کر گھر میں آنا چاہتا ہوں
لگی ہے کس گلی میں گھات لکھنا
غزل
کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا
کنول ضیائی