کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے
یہ میری آخری محفل ہے تنہائی سے پہلے
بس اک سیلاب تھا لفظوں کا جو رکتا نہیں تھا
یہ ہلچل سطح پہ رہتی ہے گہرائی سے پہلے
بہت دن ہوش مندوں کے کہے کا مان رکھا
مگر اب مشورہ کرتا ہوں سودائی سے پہلے
فقط رنگوں کے اس جھرمٹ کو میں سچ مان لوں کیا
وہ سب کچھ جھوٹ تھا دیکھا جو بینائی سے پہلے
کسی بھی جھوٹ کو جینا بہت مشکل نہیں ہے
فقط دل کو ہرا کرنا ہے سچائی سے پہلے
یہ آنکھیں بھیڑ میں اب تک اسی کو ڈھونڈتی ہیں
جو سایا تھا یہاں پہلے تماشائی سے پہلے

غزل
کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے
شارق کیفی