EN हिंदी
کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے | شیح شیری
kahan sawab kahan kya azab hota hai

غزل

کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے

وسیم بریلوی

;

کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے
محبتوں میں کب اتنا حساب ہوتا ہے

بچھڑ کے مجھ سے تم اپنی کشش نہ کھو دینا
اداس رہنے سے چہرا خراب ہوتا ہے

اسے پتا ہی نہیں ہے کہ پیار کی بازی
جو ہار جائے وہی کامیاب ہوتا ہے

جب اس کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا
تو کوئی آج کا عزت مآب ہوتا ہے

جسے میں لکھتا ہوں ایسے کہ خود ہی پڑھ پاؤں
کتاب زیست میں ایسا بھی باب ہوتا ہے

بہت بھروسہ نہ کر لینا اپنی آنکھوں پر
دکھائی دیتا ہے جو کچھ وہ خواب ہوتا ہے