EN हिंदी
کہاں صدمہ نہیں ہوتے کہاں ماتم نہیں ہوتا | شیح شیری
kahan sadma nahin hote kahan matam nahin hota

غزل

کہاں صدمہ نہیں ہوتے کہاں ماتم نہیں ہوتا

ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی

;

کہاں صدمہ نہیں ہوتے کہاں ماتم نہیں ہوتا
کوئی ایسا بھی ہے دنیا میں جس کو غم نہیں ہوتا

مسرت کا ہمیشہ ایک ہی عالم نہیں ہوتا
کرم ہوتا تو ہے ان کا مگر پیہم نہیں ہوتا

خوشی کا غم جنہیں ہوتا ہے سمجھو غم نصیب ان کو
جنہیں غم کی خوشی ہوتی ہے ان کو غم نہیں ہوتا

نہ لے جاتا جو مجنوں عالم دیوانگی ہم سے
تو اس کا ذکر خیر افسانۂ عالم نہیں ہوتا

کہاں ہے تو برائی سے برائی مٹ نہیں سکتی
ارے غافل اندھیرے سے اندھیرا کم نہیں ہوتا

یہی وہ وقت ہے جب آدمی کو ہوش آتا ہے
خدا کی یاد سے غافل دل پر غم نہیں ہوتا

برا جب وقت آتا ہے تو اس دنیائے الفت میں
کوئی مونس نہیں ہوتا کوئی ہمدم نہیں ہوتا

تسلی سے کبھی تسکین خاطر ہو نہیں سکتی
جنون شوق بڑھ جاتا ہے اس سے کم نہیں ہوتا

فضائے باغ ہستی میں خزاں بھی ہے بہاریں بھی
کہاں خوشیاں نہیں ہوتیں کہاں ماتم نہیں ہوتا

نباہ آساں نہیں دنیا کی رسم دوست داری کا
کوئی دم ساز ہوتا ہے تو ہم میں دم نہیں ہوتا

فنا کے بعد ملتا ہے سکون راحت منزل
جہاں شیرازۂ ہستی کبھی برہم نہیں ہوتا

کوئی ملتا ہے جب راہ طلب میں رہبر کامل
تو ہم کو دورئ منزل کا بھی کچھ غم نہیں ہوتا

ہمارے ایک دم پر ایک دم جو کچھ گزرتی ہے
محبت میں کبھی ایسا تو اے ہمدم نہیں ہوتا

تمہیں امداد کو خوشترؔ کی آ جاتے ہو مشکل میں
سہارا جب کوئی اے سرور عالم نہیں ہوتا