کہاں قطرہ کی غم خواری کرے ہے
سمندر ہے اداکاری کرے ہے
کوئی مانے نہ مانے اس کی مرضی
مگر وہ حکم تو جاری کرے ہے
نہیں لمحہ بھی جس کی دسترس میں
وہی صدیوں کی تیاری کرے ہے
بڑے آدرش ہیں باتوں میں لیکن
وہ سارے کام بازاری کرے ہے
ہماری بات بھی آئے تو جانیں
وہ باتیں تو بہت ساری کرے ہے
یہی اخبار کی سرخی بنے گا
ذرا سا کام چنگاری کرے ہے
بلاوا آئے گا چل دیں گے ہم بھی
سفر کی کون تیاری کرے ہے
غزل
کہاں قطرہ کی غم خواری کرے ہے
وسیم بریلوی