کہاں پہ بچھڑے تھے ہم لوگ کچھ پتہ مل جائے
تمہاری طرح اگر کوئی دوسرا مل جائے
ہزاروں نقش نہاں ہوں گے اس کے سینے میں
کبھی کبھی تو یہ آئینہ بولتا مل جائے
جلو میں لے کے چلیں سارے ناتمام سے خواب
نہ جانے کس جگہ عمر گریز پا مل جائے
نہ جانے کیا کرے امروز کا یہ سناٹا
ہمارے ماضی کا اک لمحہ چیختا مل جائے
شکست و ریخت کی دنیا میں ہوں تو خواہش ہے
خیال بکھرا ہوا جسم ٹوٹتا مل جائے
میں نذر کر دوں اسے یہ لہولہان بدن
فریب خوردہ عقیدت کا قافلہ مل جائے
اگرچہ حد نظر تک دھواں دھواں ہے فضا
اسی دیار میں ممکن ہے پھر صباؔ مل جائے

غزل
کہاں پہ بچھڑے تھے ہم لوگ کچھ پتہ مل جائے
صبا جائسی