کہاں پہنچے گا وہ کہنا ذرا مشکل سا لگتا ہے
مگر اس کا سفر دیکھو تو خود منزل سا لگتا ہے
نہیں سن پاؤ گے تم بھی خموشی شور میں اس کی
اسے تنہائی میں سننا بھری محفل سا لگتا ہے
بجھا بھی ہے وہ بکھرا بھی کئی ٹکڑوں میں تنہا بھی
وہ صورت سے کسی عاشق کے ٹوٹے دل سا لگتا ہے
وہ سپنا سا ہے سایہ سا وہ مجھ میں موہ مایا سا
وہ اک دن چھوٹ جانا ہے ابھی حاصل سا لگتا ہے
یہ لگتا ہے اس اک پل میں کہ میں اور تو نہیں ہیں دو
وہ پل جس میں مجھے ماضی ہی مستقبل سا لگتا ہے
غزل
کہاں پہنچے گا وہ کہنا ذرا مشکل سا لگتا ہے
بھویش دلشاد