کہاں کہاں سے نگہ اس کو ڈھونڈ لائے ہے
کسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آئے ہے
فلک سے جیسے ستارہ زمین پر اترے
مری گلی میں وہ محشر خرام آئے ہے
فضائے فکر میں وہ چاند بن کے چمکا ہے
شب فراق کی رنگت بدلتی جائے ہے
خدا گواہ خدا تو نہیں وہ شخص مگر
اسی کا نام مکرر لبوں پہ آئے ہے
کہاں کہاں نہ جلائے نوازشوں کے چراغ
مجھی کو گھور اندھیرے میں چھوڑ جائے ہے
وہ بات ذہن میں جس سے کچھ انتشار سا ہے
وہ بات شعر کے سانچے میں ڈھلتی جائے ہے

غزل
کہاں کہاں سے نگہ اس کو ڈھونڈ لائے ہے
ستیہ نند جاوا