EN हिंदी
کہاں کہاں سے نگہ اس کو ڈھونڈ لائے ہے | شیح شیری
kahan kahan se nigah usko DhunD lae hai

غزل

کہاں کہاں سے نگہ اس کو ڈھونڈ لائے ہے

ستیہ نند جاوا

;

کہاں کہاں سے نگہ اس کو ڈھونڈ لائے ہے
کسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آئے ہے

فلک سے جیسے ستارہ زمین پر اترے
مری گلی میں وہ محشر خرام آئے ہے

فضائے فکر میں وہ چاند بن کے چمکا ہے
شب فراق کی رنگت بدلتی جائے ہے

خدا گواہ خدا تو نہیں وہ شخص مگر
اسی کا نام مکرر لبوں پہ آئے ہے

کہاں کہاں نہ جلائے نوازشوں کے چراغ
مجھی کو گھور اندھیرے میں چھوڑ جائے ہے

وہ بات ذہن میں جس سے کچھ انتشار سا ہے
وہ بات شعر کے سانچے میں ڈھلتی جائے ہے