کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے
یہ بل کھاتے ہوئے رستے یہاں سے
وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں
اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے
زمیں اپنی کہانی کہہ رہی ہے
الگ اندیشۂ سود و زیاں سے
انہیں بنتے بگڑتے دائروں میں
وہ چہرہ کھو گیا ہے درمیاں سے
اٹھا لایا ہوں سارے خواب اپنے
تری یادوں کے بوسیدہ مکاں سے
میں اپنے گھر کی چھت پر سو رہا ہوں
کہ باتیں کر رہا ہوں آسماں سے
وہ ان آنکھوں کی محرابوں میں ہر شب
ستارے ٹانک جاتا ہے کہاں سے
رساؔ اس آبنائے روز و شب میں
دمکتے ہیں کنول فانوس جاں سے
غزل
کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے
رسا چغتائی