کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے
وہی درد دل بھی ہے دوستو وہی درد دل کی دوا بھی ہے
مری کشتی لاکھ بھنور میں ہے نہ کروں گا میں تری منتیں
یہ پتا نہیں تجھے ناخدا مرے ساتھ میرا خدا بھی ہے
یہ ادا بھی اس کی عجیب ہے کہ بڑھا کے حوصلۂ نظر
مجھے اذن دید دیا بھی ہے مرے دیکھنے پہ خفا بھی ہے
مری سمت محفل غیر میں وہ ادائے ناز سے دیکھنا
جو خطائے عشق کی ہے سزا تو مری وفا کا صلہ بھی ہے
جو ہجوم غم سے ہے آنکھ نم تو لبوں پہ نالے ہیں دم بدم
اسے کس طرح سے چھپائیں ہم کہیں راز عشق چھپا بھی ہے
یہ بجا کہ اخترؔ مسلمی ہے زمانے بھر سے برا مگر
اسے دیکھیے جو خلوص سے تو بھلوں میں ایک بھلا بھی ہے
غزل
کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے
اختر مسلمی