EN हिंदी
کہاں ہٹتا ہے نگاہوں سے ہٹائے ہائے | شیح شیری
kahan haTta hai nigahon se haTae hae

غزل

کہاں ہٹتا ہے نگاہوں سے ہٹائے ہائے

جواد شیخ

;

کہاں ہٹتا ہے نگاہوں سے ہٹائے ہائے
وہی منظر کہ جسے دیکھ نہ پائے ہائے

کیا پتہ ساری تمنائیں دھواں ہو گئی ہوں
کچھ نکلتا ہی نہیں دل سے سوائے ہائے

یاد آتی ہوئی اک شکل پہ اللہ اللہ
دل میں اٹھتی ہوئی ہر ٹیس پہ ہائے ہائے

اس گلی جا کے بھی سجدہ نہ تمہیں یاد رہا
صرف نظریں ہی جھکائے چلے آئے ہائے

ساری مشکل ہی نہاں ہے مری آسانی میں
کون یہ خستہ سی دیوار گرائے ہائے

روز اک تازہ چلم بھر کے مجھے دے فرہاد
اور پھر قیس مرے پاؤں دبائے ہائے

دل کے بیکار دھڑکنے پہ کہاں خوش تھے میاں
ہم تو پھولے نہ سمائے بہ صدائے ہائے

جب وہ جائے تو مجھے کچھ بھی نہ بھائے جوادؔ
اور جب آئے تو کچھ آئے نہ جائے ہائے