EN हिंदी
کہاں گئی احساس کی خوشبو فنا ہوئے جذبات کہاں | شیح شیری
kahan gai ehsas ki KHushbu fana hue jazbaat kahan

غزل

کہاں گئی احساس کی خوشبو فنا ہوئے جذبات کہاں

دیومنی پانڈے

;

کہاں گئی احساس کی خوشبو فنا ہوئے جذبات کہاں
ہم بھی وہی ہیں تم بھی وہی ہو لیکن اب وہ بات کہاں

موسم نے انگڑائی لی تو مسکائے کچھ پھول مگر
من میں دھوم مچا دے اب وہ رنگوں کی برسات کہاں

ممکن ہو تو کھڑکی سے ہی روشن کر لو گھر آنگن
اتنے چاند ستارے لے کر پھر آئے گی رات کہاں

خوابوں کی تصویروں میں اب آؤ بھر لیں رنگ نیا
چاند سمندر کشتی ہم تم یہ جلوے اک ساتھ کہاں

اک چہرے کا عکس سبھی میں ڈھونڈ رہا ہوں برسوں سے
لاکھوں چہرے دیکھے لیکن اس چہرے سی بات کہاں

چمک دمک میں ڈوب گئے ہیں پیار وفا کے اصلی رنگ
دیوؔ جہاں والوں میں اب وہ پہلے سے جذبات کہاں