EN हिंदी
کہاں بشارت فصل بہار لائی تھی | شیح شیری
kahan bashaarat-e-fasl-e-bahaar lai thi

غزل

کہاں بشارت فصل بہار لائی تھی

ذیشان الٰہی

;

کہاں بشارت فصل بہار لائی تھی
ہوا تو باغ کی عزت اتار لائی تھی

گلوں پہ اڑتی ہوئی تتلیوں سے یاد آیا
تری طلب مجھے دریا کے پار لائی تھی

صدا نہ پھر مرے بے جان جسم سے نکلی
ہوا تو اس کو گپھا تک پکار لائی تھی

تمہارے سائے سے ارمان سب نکالے گئے
وصال رت ثمر انتظار لائی تھی

وہ کوئی خاص چمک ڈھونڈھتا رہا ذیشانؔ
ہماری آنکھ سفر کا غبار لائی تھی