EN हिंदी
کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں | شیح شیری
kahan aur kab kab akela raha hun

غزل

کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں

ناصر راؤ

;

کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں
میں ہر روز ہر شب اکیلا رہا ہوں

مجھے اپنے بارے میں کیا مشورہ ہو
میں اپنے لئے کب اکیلا رہا ہوں

اداسی کا عالم یہاں تک رہا ہے
میں ہوتے ہوے سب اکیلا رہا ہوں

یہاں سے وہاں تک ادھر سے ادھر تک
میں پشچم سے پورب اکیلا رہا ہوں

بہت حوصلہ مجھ کو میں نے دیا ہے
میں روتے ہوے جب اکیلا رہا ہوں

تری ذات مجھ سے جدا ہی رہی ہے
میں تب ہو کہ یا اب اکیلا رہا ہوں