کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں
میں ہر روز ہر شب اکیلا رہا ہوں
مجھے اپنے بارے میں کیا مشورہ ہو
میں اپنے لئے کب اکیلا رہا ہوں
اداسی کا عالم یہاں تک رہا ہے
میں ہوتے ہوے سب اکیلا رہا ہوں
یہاں سے وہاں تک ادھر سے ادھر تک
میں پشچم سے پورب اکیلا رہا ہوں
بہت حوصلہ مجھ کو میں نے دیا ہے
میں روتے ہوے جب اکیلا رہا ہوں
تری ذات مجھ سے جدا ہی رہی ہے
میں تب ہو کہ یا اب اکیلا رہا ہوں
غزل
کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں
ناصر راؤ