EN हिंदी
کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک | شیح شیری
kahan aaya hai diwanon ko tera kuchh qarar ab tak

غزل

کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک

بسملؔ  عظیم آبادی

;

کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک
ترے وعدے پہ بیٹھے کر رہے ہیں انتظار اب تک

خدا معلوم کیوں لوٹی نہیں جا کر بہار اب تک
چمن والے چمن کے واسطے ہیں بے قرار اب تک

برا گلچیں کو کیوں کہئے برے ہیں خود چمن والے
بھلے ہوتے تو کیا منہ دیکھتی رہتی بہار اب تک

چمن کی یاد آئی دل بھر آیا آنکھ بھر آئی
جہاں بولا کوئی گلشن میں باقی ہے بہار اب تک

سبب جو بھی ہو صورت کہہ رہی ہے رات جاگے ہو
گواہی کے لئے باقی ہے آنکھوں میں خمار اب تک

قیامت آئے تو ان کو بھی آتے آتے آئے گا
وہ جن کو تیرے وعدے پر نہیں ہے اعتبار اب تک

سلامت مے کدہ تھوڑی بہت ان کو بھی دے ساقی
تکلف میں جو بیٹھے رہ گئے کچھ بادہ خوار اب تک

خدارا دیکھ لے دنیا کہ پھر یہ بھی نہ دیکھے گی
چمن سے جاتے جاتے رہ گئی ہے جو بہار اب تک

قفس میں رہتے رہتے ایک مدت ہو گئی پھر بھی
چمن کے واسطے رہتی ہے بلبل بے قرار اب تک

خبر بھی ہے تجھے مے خوار تو بدنام ہے ساقی
دبا کر کتنی بوتل لے گئے پرہیزگار اب تک

ارے دامن چھڑا کر جانے والے کچھ خبر بھی ہے
ترے قدموں سے ہے لپٹی ہوئی خاک مزار اب تک

یہ کہنے والے کہتے ہیں کہ توبہ کر چکے بسملؔ
مگر دیکھے گئے ہیں میکدے میں بار بار اب تک