کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا
وہ اور بات تھی جس سے مجھے قرار نہ تھا
شب وصال وہ کس ناز سے یہ کہتے ہیں
ہمارے ہجر میں سچ مچ تجھے قرار نہ تھا
بگھارتا ہے جو اب شیخ زہد کی باتیں
تو کیا یہ عہد جوانی میں بادہ خوار نہ تھا
فقط تھی ایک خموشی مرے سخن کا جواب
نہیں نہیں تجھے کہنا ہزار بار نہ تھا
یہ مجھ کو دیکھتے ہی تو نے کیوں چرائی آنکھ
نگاہ لطف کا کیا میں امیدوار نہ تھا
وہی تھیں عیش کی راتیں وہی تھے لطف کے دن
کسی کی یاد کسی کا جب انتظار نہ تھا
ہزار شکر کہ نکلا وہ صادق الاقرار
تمہیں حفیظؔ کی باتوں کا اعتبار نہ تھا
غزل
کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا
حفیظ جونپوری