کہہ گیا تھا وہ کچھ اشارے سے
بات سمجھائیں ہنستے تارے سے
اس سے ملتے ہی آنکھ بھر آئی
لہر اک آ لگی کنارے سے
گالیاں اب وہ کیوں نہیں دیتے
کیا خطا ہو گئی ہمارے سے
کس کو جا کر بتاؤں میں یہ بات
دن گزرتا نہیں گزارے سے
بھول جاتے ہو نام تک میرا
کیا توقع رکھوں تمہارے سے

غزل
کہہ گیا تھا وہ کچھ اشارے سے
نسیم عباسی