EN हिंदी
کہہ دے من کی بات تو گوری کاہے کو شرماتی ہے | شیح شیری
kah de man ki baat to gori kahe ko sharmati hai

غزل

کہہ دے من کی بات تو گوری کاہے کو شرماتی ہے

ناصر شہزاد

;

کہہ دے من کی بات تو گوری کاہے کو شرماتی ہے
شام ڈھلے تجھ کو کس اپرادھی کی یاد ستاتی ہے

تجھ کو مجھ سے پریم ہے تو بے کل ہے میری چاہت میں
تیری پایلیا کی جھن جھن سارے بھید بتاتی ہے

کھول کے گھونگھٹ کے پٹ پیار سے کرتی ہے پرنام مجھے
بھور بھئے جب نیر بھرن کو وہ پنگھٹ پر آتی ہے

باندھ گئی ہے مجھ سے اے دل بندھن پریت کی ڈوری سے
گاؤں کی وہ نار جو اپنے جوبن پر اتراتی ہے

کچھ تو بتا دو کون ہے جو تیرے منوا کو لوٹ گیا
کس کی خاطر تو معبد میں دیپ جلانے جاتی ہے

ناصرؔ روح میں گھل جاتی ہے مست مہک مادھوری کی
جب سکھیوں کے سنگ وہ ناری ندیا بیچ نہاتی ہے