کہہ ڈالے غزلوں نظموں میں افسانے کیا کیا
دل میں پھر بھی دھڑکتا رہتا ہے جانے کیا کیا
داغ کو چاند آنسو کو موتی زخم کو پھول کہیں
ہم کو بھی انداز سکھائے دنیا نے کیا کیا
چاند ایسے چہروں والے ہیں چاند اتنے ہی دور
جن کے سپنے دیکھتے ہیں ہم دیوانے کیا کیا
سوکھے لب پھیکے رخسار اور الجھے الجھے بال
شہروں میں بھی مل جاتے ہیں ویرانے کیا کیا

غزل
کہہ ڈالے غزلوں نظموں میں افسانے کیا کیا
احمد معصوم