کڑھاؤ رکھ کے تخیل پہ آسمان تلے
یقیں کے تیل میں لوگوں نے سب گمان تلے
عقیدتوں کا عجب فلسفہ ہے کیا کیا جائے
کہ اس میں انگلیاں دب جاتی ہیں کمان تلے
زبان آگ سہی دل ہمارا جل تھل ہے
تپش پہنچتی نہیں لو کی شمع دان تلے
فساد بالا نشینوں کی شہہ پہ ہوتا ہیں
وگرنہ رہتے نہیں دانت کیا زبان تلے
شعور مسند اوہام پر ہے جلوہ فگن
کبھی بٹھاؤ حقیقت کے سائبان تلے
غزل
کڑھاؤ رکھ کے تخیل پہ آسمان تلے
منّان بجنوری