کچے بخیے کی طرح رشتے ادھڑ جاتے ہیں
لوگ ملتے ہیں مگر مل کے بچھڑ جاتے ہیں
یوں ہوا دوریاں کم کرنے لگے تھے دونوں
روز چلنے سے تو رستے بھی اکھڑ جاتے ہیں
چھانو میں رکھ کے ہی پوجا کرو یہ موم کے بت
دھوپ میں اچھے بھلے نقش بگڑ جاتے ہیں
بھیڑ سے کٹ کے نہ بیٹھا کرو تنہائی میں
بے خیالی میں کئی شہر اجڑ جاتے ہیں
غزل
کچے بخیے کی طرح رشتے ادھڑ جاتے ہیں
ندا فاضلی