کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دہاں مجھ کو
بہت بتنگ کیا تو نے اے میاں مجھ کو
وہ دن گئے کہ اٹھاتے تھے یار نکہت گل
ہے بے دماغیٔ دل ان دلوں گراں مجھ کو
میں رہگزر میں پڑا ہوں برنگ نقش قدم
میں چھوڑا کس کے بھروسے پہ کارواں مجھ کو
میں ہوں تو مرغ چمن پر غلط نگاہی سے
ہیں کتنے روز کہ بھولا ہے آشیاں مجھ کو
تو اتنے واسطے اے باغباں نہ کاوش کر
بہت ہے سایۂ دیوار گلستاں مجھ کو
روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس مرے
کیا ہے بسکہ محبت نے بد گماں مجھ کو
مری نظر میں ہے قائمؔ یہ کائنات تمام
نظر میں گو کوئی لاتا نہیں ہے یاں مجھ کو
غزل
کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دہاں مجھ کو
قائم چاندپوری