کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
اک انتظار کا موسم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی ہے خشک کبھی نم رہا ہے آنکھوں میں
ٹھہر ٹھہر کے یہ زمزم رہا ہے آنکھوں میں
بسا ہوا ہے تصور میں اک حسیں پیکر
کوئی خیال مجسم رہا ہے آنکھوں میں
نظر کے سامنے آئی ہیں کتنی تصویریں
اسی کا عکس مگر رم رہا ہے آنکھوں میں
وہ قربتوں کا تصور وہ لمس کا جادو
سدا بہار یہ موسم رہا ہے آنکھوں میں
الجھ کے رہ گئے نیندوں کے خواب پلکوں پر
کوئی خیال یوں پیہم رہا ہے آنکھوں میں
لب خموش پہ میناؔ ہے نوحۂ ہجراں
درون ذات یہ ماتم رہا ہے آنکھوں میں
غزل
کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
مینا نقوی