کبھی زمین کبھی آسماں میں تیرتا ہوں
طلسم نور کے اک اک نشاں میں تیرتا ہوں
برنگ ساز کبھی بربطوں سے پھوٹتا ہوں
کبھی بہ شکل صدا ارمغاں میں تیرتا ہوں
کبھی میں ڈھلتا ہوں کاغذ پہ نقش کی صورت
میں لفظ بن کے کسی کی زباں میں تیرتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے بھی خبر نہیں ہوتی
کہ کس مقام پہ کس کس جہاں میں تیرتا ہوں
مرے سفر میں کوئی اجنبی سا رہتا ہے
محیط شعر کے جب امتحاں میں تیرتا ہوں

غزل
کبھی زمین کبھی آسماں میں تیرتا ہوں
خاور نقوی