EN हिंदी
کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں | شیح شیری
kabhi zaKHmi karun panw kabhi sar phoD kar dekhun

غزل

کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں

رفیق سندیلوی

;

کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں
میں اپنا رخ کسی جنگل کی جانب موڑ کر دیکھوں

سمادھی ہی لگا لوں اب کہیں ویران قبروں پر
یہ دنیا ترک کر دوں اور سب کچھ چھوڑ کر دیکھوں

مجھے گھیرے میں لے رکھا ہے اشیا و مظاہر نے
کبھی موقع ملے تو اس کڑے کو توڑ کر دیکھوں

اڑا دوں سبز پتوں میں چھپی خواہش کی سب چڑیاں
کبھی دل کے شجر کو زور سے جھنجھوڑ کر دیکھوں

عدم تکمیل کے دکھ سے بچا لوں اپنی سوچوں کو
جہاں سے سلسلہ ٹوٹے وہیں سے جوڑ کر دیکھوں