کبھی زباں پہ نہ آیا کہ آرزو کیا ہے
غریب دل پہ عجب حسرتوں کا سایا ہے
صبا نے جاگتی آنکھوں کو چوم چوم لیا
نہ جانے آخر شب انتظار کس کا ہے
یہ کس کی جلوہ گری کائنات ہے میری
کہ خاک ہو کے بھی دل شعلۂ تمنا ہے
تری نظر کی بہار آفرینیاں تسلیم
مگر یہ دل میں جو کانٹا سا اک کھٹکتا ہے
جہان فکر و نظر کی اڑا رہی ہے ہنسی
یہ زندگی جو سر رہ گزر تماشا ہے
یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا
ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے
یہی رہا ہے بس اک دل کے غم گساروں میں
ٹھہر ٹھہر کے جو آنسو پلک تک آتا ہے
ٹھہر گئے یہ کہاں آ کے روز و شب اخترؔ
کہ آفتاب ہے سر پر مگر اندھیرا ہے
غزل
کبھی زباں پہ نہ آیا کہ آرزو کیا ہے
اختر سعید خان