کبھی یاد خدا کبھی عشق بتاں یوں ہی ساری عمر گنوا بیٹھا
اب آخر عمر میں آ کے کھلا نہ تھی یہ سچی نہ تھا وہ سچا
کبھی خواہش دنیا لے ڈوبی کبھی خوف خدا نے تنگ کیا
اب آ کر بھید کھلا ہم پر نہ تھی یہ اچھی نہ تھا وہ اچھا
سر پر گٹھری انگاروں کی اور خواہش پار اترنے کی
آگے باریک سا نازک پل اور نیچے آگ کا اک دریا
کچھ عقدے ایسے ہوتے ہیں جو نہ ہی کھلیں تو بہتر ہے
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دل میں چھپا لینا اچھا
وہ مرزا اگلے وقتوں کا وہ صاحباں گزرے وقتوں کی
جو کرنا تھا وہ کر گزرے جو کہنا تھا وہ کہہ دیکھا
اجداد کہیں تم ہل ڈالو اور فصل اگاؤ کرموں کی
پیچھے تاریخ کا ہانکا ہے اور آگے بیل ڈرا سہما
غزل
کبھی یاد خدا کبھی عشق بتاں یوں ہی ساری عمر گنوا بیٹھا
فیاض تحسین