EN हिंदी
کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے | شیح شیری
kabhi wo KHush bhi raha hai kabhi KHafa hua hai

غزل

کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے

ابو الحسنات حقی

;

کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے
کہ سارا مرحلہ طے مجھ سے برملا ہوا ہے

نشستیں پر ہیں چراغ و ایاغ روشن ہیں
بس ایک میرے نہ ہونے سے آج کیا ہوا ہے

اٹھا کے رکھ دو کتاب فراق کو دل میں
کہ یہ فسانہ ازل سے مرا سنا ہوا ہے

کبھی نہ خالی ملا بوئے ہم نفس سے دماغ
تمام باغ میں جیسے کوئی چھپا ہوا ہے

مری گرفت میں آتا نہیں ہے وہ پل بھر
مری نظر سے مرا دل ابھی بچا ہوا ہے

اسی کے اذن و رضا سے ہے سب نگہ داری
کہ دام و دانہ سبھی کچھ یہاں پڑا ہوا ہے

میں خواب میں بھی وہ دامن پکڑ نہیں سکتا
یہ ہاتھ اور کسی ہاتھ میں دیا ہوا ہے

یہی بہت ہے اگر ایک ہم سخن مل جائے
میں سن رہا ہوں مرا دل بھی تو دکھا ہوا ہے

میان وعدہ کوئی عذر اب کے مت لانا
کہ راہیں سہل ہیں اور زخم بھی کھلا ہوا ہے

وہ بے خبر ہے مری جست و خیز سے شاید
یہ کون ہے جو مقابل مرے کھڑا ہوا ہے