کبھی تو موند لیں آنکھیں کبھی نظر کھولیں
کسی طرح سے کوئی روشنی کا در کھولیں
ہوائیں سرد ہیں اوپر سے تیز بارش ہے
پرند کیسے بھلا اپنے بال و پر کھولیں
ہمارے سامنے اب ایسا وقت آ پہنچا
کہ ہم دماغ کو باندھیں دل و جگر کھولیں
بجائے آب ہو شوراب سے نمو جن کی
وہ پیڑ کیسے بڑھیں کیسے برگ و بر کھولیں
یقین کیسے دلائیں وفا شعاری کا
دلوں کو چاک کریں یا کہ ہم جگر کھولیں
نہیں ہے کچھ بھی مگر دل یہ چاہتا ہے بہت
کہ ایک روز ذرا چل کے اپنا گھر کھولیں
ہر ایک سمت ہے دیوار سر اٹھائے ہوئے
کوئی بتائے کہ ہم کھڑکیاں کدھر کھولیں
ہر ایک آنکھ کی پتلی ہے موتیا کی شکار
کسے کمال دکھائیں کہاں ہنر کھولیں

غزل
کبھی تو موند لیں آنکھیں کبھی نظر کھولیں
غضنفر