کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ
جلے بھوؤں پہ کرے اپنی مہربانی دھوپ
ہمارے داغ کو جب آفتاب نے دیکھا
ہوا یہ زرد نظر آئے زعفرانی دھوپ
تپ فراق وہ بد ہے چڑھے جو سورج کو
پگھل کے برف کی صورت ہو پانی پانی دھوپ
سفر سقر ہے ہزاروں بلائیں سر پر ہیں
ہے ایک ان میں سے آسیب آسمانی دھوپ
تہہ سحاب رہے آفتاب روز فراق
شعاعوں سے نہ کرے مجھ پہ تیغ رانی دھوپ
کٹے جو رات بھی زخمیٔ ہجر کو تو کیا
ہے مار ڈالنے کو چاندنی کی ثانی دھوپ
رہے شگفتہ ہم اس طرح جیسے آگ کے پھول
کبھی نہ دشت نوردی میں ہم نے پانی دھوپ
سفید بال ہوئے جیسے تیور آتے ہیں
بہت ضعیف کو دیتے ہے سرگرانی دھوپ
ہمیں تو فصل زمستاں بہت خوش آتی ہے
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور وہ سہانی دھوپ
لگائے ابر کا لکا نہ کس طرح چھتری
کرے نہ چاند سے رنگت کو آسمانی دھوپ
عجب نہیں گل رخسار سوسنی ہو جائیں
بہار حسن کو ہے آفت خزانی دھوپ
امیر شال دوشالوں میں گرم راحت و عیش
غریب کے لیے جاڑوں میں زندگانی دھوپ
ذرا سی گرم ہوا میں یہ منہ بناتی ہیں
نہ کر سکے گی گلوں کی مزاج دانی دھوپ
موافقت نہ کبھی سرد و گرم میں ہوگی
ہے چاندنی مری پیری تری جوانی دھوپ
شباب یاد دلاتے ہے سر سفیدی بحرؔ
ہے آفتاب جوانی کی یہ نشانی دھوپ
غزل
کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ
امداد علی بحر