کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا
کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا
یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں
مجھے صبر نے یہ ثمر دیا مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا
زمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا نیا شہر ایک بساؤں گا!
مرے بخت نے مرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا
کسی زخم تازہ کی چاہ میں کہیں بھول بیٹھوں نہ راہ میں
کسی نوجواں کی نگاہ نے جو پیام وقت سحر دیا
مرے ساتھ بود و نبود میں جو دھڑک رہا ہے وجود میں
اسی دل نے ایک جہان کا مجھے روشناس تو کر دیا

غزل
کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا
ثروت حسین