کبھی تنہائی کا احساس نہیں رہتا ہے
دور رہ کے بھی وہ اس دل کے قریں رہتا ہے
میری پلکوں پہ لگا دینا نظر کا ٹیکہ
میری آنکھوں میں کوئی پردہ نشیں رہتا ہے
وقت مٹی میں ملا دیتا ہے شاہوں کو بھی
حشر تک کون بھلا تخت نشیں رہتا ہے
تیری نس نس میں لہو بن کے رواں رہتا ہوں
راستہ جیسے کوئی زیر زمیں رہتا ہے
وہ کہیں بھی رہے فاروقؔ دعائیں دے گا
اس کی چاہت پہ مجھے کتنا یقیں رہتا ہے

غزل
کبھی تنہائی کا احساس نہیں رہتا ہے
فاروق رحمان